04-Sep-2022 یادوں کا ایک خوبصورت سفر (1)
یادوں کا ایک خوبصورت سفر (1)
……………………………………………
یہ ۹۰/ کے عشرے کی بات ہے کہ جب میری کم سنی کے ایام تھے اور میں ہوش و حواس سنبھال کر آٹھویں برس کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا ۔ ہاشم پورہ میرٹھ فسادات اور میری ولادت ایک ہی برس میں ہوئی ہے ۔
مظفر نگر شہر سے شمال مغرب میں چرتھاول ہوتے ہوئے تھانہ بھون جانے والی عام شاہراہ پر ' ددھیڑو کلاں ' نامی گاؤں واقع تھا ۔ ددھیڑو بلاک چرتھاول کا نسبتاً ترقی یافتہ دیہات تھا ، آمد و رفت کے لیے سروس بہتر تھی ۔ گوکہ آبادی کم تھی ، رہائش اور زراعت کے لیے اراضی میسر تھی ، تاہم سہولت کا فقدان تھا ۔ گاؤں کی اکثریت پیشۂ زراعت سے منسلک تھی ، ان کی یہ اراضی موروثی تھی ، جب کہ صنعت منسوج سازی سے وابستگی میرے خاندان نے وراثت میں پائی تھی ۔ یہاں تعلیمی شعور ۵/ فی صد تھی ۔ بستی کا ۳/ فی صد نوجوان طبقہ تلاش معاش میں بلادِ عرب میں رہائش پذیر تھا ۔ گاؤں کی سڑکیں پکی اینٹوں سے بناگئی تھیں ۔ لاتعداد مکانات پکے ، کشادہ اور وسیع ہیں جب کہ بے شمار گھر کچے بھی تھے جو اپنی پختگی میں بے مثال تھے ۔ مصنوعی برق کا نظام بہتر نہیں تھا ، رات میں روشنی کے لیے چراغ اور لیمپ جلتے تھے ، جن میں مٹی کا تیل ہوتا تھا ۔ گاؤں کے مغرب میں ایک چھوٹا سا شفاء خانہ ہے ، جس میں بقدر ضرورت طبی سہولیات موجود ہیں ، جس کے مالک ڈاکٹر ارشد ہیں ۔ گاؤں کے مغرب میں ایک بڑا سا راج باہ بہہ رہا تھا ، آس پاس کے کھیتوں کی اسی کے پانی سے سینچائی کی جاتی تھی ، اس ترقی یافتگی کے زمانہ میں برقی ٹیوب ویل نے اس کی اہمیت کو بہت متاثر کیا ہے ۔ بیل کی جوڑی سے کھیتوں کی جتائی کی جاتی تھی ، آج دن بھر کھیتوں میں ٹریکٹر دوڑ تے رہتے ہیں ۔ سینچائی اور جتائی کے قدیم تمام آلات اپنے اختتام کو پہنچے ۔
گاؤں کے بس اڈہ کے نزدیک ہی عید گاہ تھی ، جس کے احاطہ میں ہائی اسکول ، انٹر کالج ہیں جو ریاستی حکومت کے زیر نگرانی اپنے فرض منصبی کی انجام دہی میں مصروف کار تھے ، آبادی کے دوسرے کنارے پر سرکاری پرائمری اسکول قائم کیا گیا تھا ، اس نے ” کوڑی والے “ کے نام سے شہرت پائی تھی ، ان تعلیم گاہوں میں ابتدائی اور ثانوی کی مختلف سطح پر تعلیم دی جاتی تھی ۔ اطراف و اکناف کے علاقوں اور گاؤں کی نسلِ نو اردو ، سنسکرت اور انگریزی زبان میں امورِ خانہ داری ، تصویر کشی ، ریاضی ، ادبیات ، معاشیات ، ہندوستانی ثقافت و وراثت ، ماحولیات ، جغرافیہ ، سیاست ، سماجیات ، تاریخ اور سائنس جیسے مضامین ماہر اساتذہ سے اخذ کرتی تھی ۔ گاؤں میں اڈہ کے نزدیک ہی ایک دینی مدرسہ تھا جو کہ پسماندگی کا شکار تھا ، مساجد میں ہی ائمہ حضرات قرآن کریم ، دینی اور اردو ادب کی تعلیم دیتے تھے ، ان کا طرز تعلیم اور لب و لہجہ عام طور سے سادہ ہوتا تھا ، انہیں حقِ خدمت ہر فصل کے ختم پر پیداوار کی شکل میں دیا جاتا تھا ۔ بستی میں عوامی ذرائع ابلاغ ؛ اخبارات و رسائل ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، ٹیلی فون اور فیکس کا عام تصور نہیں تھا ، حتی کہ کسی کی فوتگی کی خبر رسانی کے لیے بالقصد سفر کیا جا تا تھا ، مگر یہاں محکمۂ ڈاک چاق وچوبند اور منظم تھا ۔
گاؤں کی آخری سرحد سے ذرا پہلے ایک بند گلی میں میرا پشتینی مکان تھا جو کہ مکمل طور پر کچی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا جو موسم گرما میں راحت رسانی کا سامان فراہم کرتا تھا ۔ اس کے ایک حصہ میں زنان خانہ تھا جب کہ دوسرا گوشہ مردان خانہ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا ۔ گھر کا صحن بہت وسیع تھا ، جس میں میری طفلانہ زندگی کا ایک ربع گزرا تھا ۔ چڑیوں نے گھر کی چھت میں اپنے آشیانے بنا رکھے تھے ، دن بھر صحن میں چہچہاتی رہتی تھیں ، کبھی میں ان کا شکار کرنے کے لیے پھندی لگا لیتا تھا ۔ گھر کے آنگن میں میری والدہ رنگ برنگے پھول ، بوٹے ، پودے اور بقدر ضرورت غذائی اجناس اگاتی تھی ۔ آج بھی ان کا جذبۂ شجرکاری موج زن ہے ۔ بڑے کمرے کے سامنے شیشم کا بوڑھا درخت سائبان بن کر کھڑا ہوا تھا ، گرمیوں میں اس کا سایہ کڑکتی دھوپ کی مضرت رسانی سے بچائے رکھتا تھا اور ہوائیں بھی جھلتا رہتا تھا ۔ ایک طرف امرود کا پیڑ تھا جس کا پھل بہت شیریں تھا ۔ موسم باراں میں سارا صحن مٹی کی سوندھی خوشبوؤں سے مہک اٹھتا تھا جو میرے ذہن و دماغ میں آج بھی بسی ہوئی ہے ۔ یہ میری یادوں کی پرچھائیاں ، صحرا میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں ، جو تنہائی میں آکر مجھے رلاتی اور تڑپاتی رہتی ہیں ۔ یہ گاؤں بھانت بھانت کے لوگوں کی جائے قیام ہے ۔ گاڑا ، تیاگی سماج ایک دوسرے کے حریف ہیں ، آئے دن ایک دوسرے کو جانی نقصان پہنچانا ان کا مرغوب مشغلہ تھا ۔ میرا گھرانہ تیاگی خاندان کا حلیف تھا ۔ مرحوم محمد عثمان الطاف تیاگی ، گرام پنچایت کی صدارت پر ایک زمانے تک متمکن رہے تھے ۔ مرحوم عبد الغفار میرے خاندانی جد ہیں ، عصری تعلیم یافتہ ہیں ، اپنی برادری کے صدر تھے ، عثمان الطاف کے دور سے پہلے ۱۰/ برس تک گرام پنچایت کے صدر رہے تھے اور انھیں عثمان الطاف کی حمایت حاصل تھی ۔
از قلم شعیب غازی
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com
Saba Rahman
09-Sep-2022 09:07 PM
Nice
Reply
Sona shayari
06-Sep-2022 10:00 PM
Bahut khoob💓
Reply
Arshi khan
06-Sep-2022 09:37 PM
بہت خوب
Reply